ہفت روزہ ورلڈ آن لائن
بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ رکھنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے


اسمارٹ فون ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔تاہم حد سے زائد استعمال آپ کو نفسیاتی اور جسمانی اُلجھنوں میں مبتلا کر کے آپ پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فون جہاں نوجوانوں کو حقیقی دنیا سے دُور کر رہا ہے وہیں نو عمر بچوں میں بھی اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، خاص کر کرونا وبا کے بعد سے آن لائن تعلیم کے نام پر نوعمروں میںاس کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کا زیادہ استعمال آپ کے لئے صحت کے مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے۔پاکستان میں پہلی مرتبہ اسمارٹ فونز کی تعداد 26 سے تجاوزکر چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق 10 سال سے زیادہ عمر کی آبادی کا تین چوتھائی اس وقت اسمارٹ فون کے مالک ہیں اس کے برعکس انٹرنیٹ کے استعمال کی شرح اب بھی کم ہے۔ انٹر نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (ITU) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ موبائل یا سیل فون انٹرنیٹ استعمال کرنے کاسے آسان طریقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد انٹرنیٹ کی دستیابی اور استعمال کی سطح کا تعین کرتی ہے۔لیکن رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسمارٹ فون کی ملکیت فی الحال انٹر نیٹ کے استعمال سے ذیادہ ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ان ممالک میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی قیمت بہت ذیادہ ہے ۔ دریں اثناء ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 16 کروڑ 40 لاکھ (75 فیصد ) سے زائد افراد موبا ئل فون استعمال کرتے ہیں، 37کروڑ60 لاکھ (3.5) سےزائد انٹرنیٹ صارفیں ہیں جبکہ 3کروڑ 79 لاکھ (17فیصد ) پاکستانی کسی نہ کسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سع منسلک ہیں۔ ان میں ایک بری تعداد بچوں کی بھی ہے جو نہ صرف اسمارٹ فونز بلکہ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کر رہے ہیں ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک سال کے بچے کے ہاتھ میں بھی ماں باپ بڑی بے فکری سے موبائل پکڑا دیتےہیں اور یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ موبائل فون دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے ۔ پھر رفتہ رفتہ کچھ منٹ سے کچھ گھنٹے اور بچے کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ موبائل استعمال کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے ماں باپ بچوں کو آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں اور وہ کمرے میں بند ،آنکھوں سے فون اور کانوں میں ہینڈ فری لگائے مگن ہوتے ہیں ، انہیں دنیا جہاں ،ملنے جلنے ، گھر میں کوئی دلچسپی کسی سے کوئی غرض نہیں رہتی ،پھر والدین افسوس کرتے اور چیختے چلاتے نظر آتے ہیں ،بچوں میں موبائل فونز کے استعمال کا سب سے بڑا نقصان جوسامنے آرہا ہے کہ انھیں اب سماجی تعلقات، میل جول، بہن بھائیوں اور والدین سے بات کرنے کے بجائے موبائل فون میں گم رہنے میں زیادہ مزہ آتا ہے یہاں تک کے اگر آپ زبردستی انھیں کسی تقریب میں لے جائیں تو وہاں بھی وہ میل جول اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے موبائل فون سے ہی خود کو مصروف رکھے نظر آئیں گے۔ فونز نے سماجی تعلقات اور تربیت میں جو رکاوٹ ڈالی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ نتیجے میں جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی تربیت ویسی نہیں ہو پاتی جیسی معاشرے میں جینے کیلئے لازمی ہے اور یہ بچے اپنے خول میں بند ہو کر معاشرے سے بالکل کٹ جاتے ہیں اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بیوی بچوں کیلئے بھی نقصان کا باعث بنتے ہوئے ان جیسے خشک اور تنہا انسانوں کا ایک سرکل بننا شروع ہو جاتاہے جو معاشرے کی اصل شکل بگاڑ دیتا ہے۔ دوسری جانب یونیسیف کے مطابق ہر روز یا ہر آدھے سیکنڈ میں 175000 سے زیادہ بچے پہلی بار آن لائن دُنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہونے سے ان کے سامنے فوائد اور مواقع کا ایک بہت بڑا دروازہ کھلتا ہے۔ لیکن یہ انہیں خطرات اور نقصانات سے بھی بے نقاب کرتا ہے، بشمول نقصان دہ مواد، جنسی طور پرہراساں کرنا اور استحصال، سائبر دھونس اور ان کی ذاتی معلومات کا غلط استعمال وغیرہ۔ ۔ بچوں کو ڈیجیٹل دنیا کے نقصانات سے بچانے ، ان کی سرگرمیوں کےبارے میں معلومات آن لائن رکھنے اور انہیں محفوظ اور معیاری میڈیا تک رسائی فراہم کرنے کے لیے بہت کم کام کیا گیا ہےبچوں کو محفوظ رکھنا حکومت، خاندانوں، اسکولوں اور دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے۔ سب سے پہلے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کو موبائل فون کم از کم 16سال کی عمر سے پہلے کسی صورت نہیں دیا جائے گا، اگر اسکول یا کالج یا کسی جگہ جاتے ہوئے بچوں سے رابطے کا مسئلہ ہے تو صرف اتنے وقت کیلئے ایک عام سا موبائل فون جس میں صرف کال سنے اور کرنے کی سہولت ہو وہ بچے کو دیا جاسکتا ہے۔ ورنہ بچوں کیلئےموبائل فون کی عمر 16 سال سے کم نہ ہو۔ 16 سال کی عمر میں بھیموبائل فون دینے کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ محفوظ اور آپ فکروں سے آزاد ہو گئے،بلکہ آپ اس کیلئے وقت مقرر کریں اور ساتھ ہی نگاہ رکھیں کہ وہ فون پر کیا دیکھ رہاکس طرح استعمال کر رہا ہے اس کی دلچسپیاں کس چیز میں ہیں۔ فقط موبائل فون ہی نہیں بلکہ بچوں کے ٹی وی دیکھنے کے ٹائمنگز بھی طے کریں اور ان کے سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی گہری نظر رکھیں۔ یاد رکھیں بچوں کی تربیت اور ان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کو اسے پورا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔